سدرہ جس طرح اُس کی زندگی سے اچانک گئی تھی، اُسی طرح اچانک واپس چلی آئی۔ وہ دونوں اسکول میں دو سال تک ایک ہی جماعت میں رہے تھے اور دونوں کی آپس میں بات چیت نہ بہت زیادہ تھی اور نہ بہت کم۔ لیکن جس قدر بھی تعلق تھا، وہ عمومی نوعیت کا تھا۔ اُس میں ذاتی نوعیت کا تو شائبہ تک نہیں تھا، خصوصاً رومی کی جانب سے۔ سدرہ کے انداز میں اکثر گرم جوشی کچھ زیادہ ہوتی لیکن رومی کے ذہن میں کوئی دوسری بات نہیں تھی۔
اسکول کے دِنوں میں سدرہ باقی لڑکیوں سے خاصی مختلف تھی۔ چھوٹے بال کندھوں کو چھوتے ہوئے، بھرا بھرا فربہ جسم، بھولی سی مسکراہٹ اور آنکھوں میں غیر معمولی چمک۔ اُس کے رکھ رکھاؤ سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کسی اچھے گھر کی لڑکی ہے۔
اسکول کے دِنوں میں سدرہ باقی لڑکیوں سے خاصی مختلف تھی۔ چھوٹے بال کندھوں کو چھوتے ہوئے، بھرا بھرا فربہ جسم، بھولی سی مسکراہٹ اور آنکھوں میں غیر معمولی چمک۔ اُس کے رکھ رکھاؤ سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کسی اچھے گھر کی لڑکی ہے۔
اور پھر اسکول ختم ہوا تو تعلقات بھی جیسے ختم ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد سب ایک دوسرے کو بھول بھال گئے۔ دو سال بعد ایک دن رومی کے پاس سدرہ کا فون آگیا۔ اور پھر ٹیلی فونک رابطوں کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ اب کی بار اس تعلق کی نوعیت عمومی نہیں، کافی ذاتی تھی۔ وہ دونوں گھنٹوں ایک دوسرے سے فون پر باتیں کرتے، بے مقصد باتیں۔ دن بھر کے معمولات، پرانی یادیں، پسند ناپسند۔۔۔ اور کتنے ہی ایسے موضوعات جو بات جاری رکھنے کا بہانا بنانے کے لیے بارہا دہرائے جاتے۔ فاصلے سمٹنے لگے۔دِلوں کے درمیان فاصلہ عجیب نوعیت کا ہوتا ہے۔ بڑھنے پر آئے تو پل بھر میں بہت طویل ہوجاتا ہے، اور گھٹنے پر آئے تو یک دم سمٹ جاتا ہے۔ یوں، رومی اور سدرہ بھی اتنی تیزی سے قریب آئے کہ اُنھیں سنبھلنے کا موقع بھی نہ ملا۔ اور اس راہ میں سنبھلنے کے مواقع ملیں بھی تو کون اُن سے فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے۔ کچھ ہی دِنوں میں بات اظہارِ محبت اور پھر انتہائی محبت تک جاپہنچی۔ گفت گو کا ذریعہ اگرچہ فون تک محدود تھا لیکن بات فون سے کہیں آگے نکل چکی تھی۔ جب وہ دو آوازیں ایک دوسرے کی سماعت سے ٹکراتیں تو جسم میں برقی رو سی دوڑ جاتی۔ ایک عجیب گرمائش کا احساس ہوتا۔
اور پھر ایک شام سدرہ نے ملاقات کی پیش کش کردی۔ وہ صرف ملاقات کی پیش کش نہیں تھی، بل کہ ساتھ ہی یہ اطلاع کہ گھر میں کوئی نہیں ہے، اپنے اندر بہت سے معانی سموئے تھی۔ ان پوشیدہ معانی کے خیال نے رومی کو اندر تک لرزادیا۔
رومی جلدی سے تیار ہوکر سدرہ کے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ دو جسموں کے درمیان فاصلہ گھٹنے کا وقت آپہنچا تھا۔ سدرہ کا گھر ڈھونڈنے میں اُسے کوئی خاص مشکل نہیں ہوئی۔ علاقہ اُس کا جانا پہچانا تھا۔ وہ اُسے دروازے ہی پر کھڑی مل گئی۔ رومی کو دیکھتے ہی اُس کا چہرہ کھل اُٹھا۔ سدرہ نے پیلے رنگ کی باریک قمیص اور چوڑی دار پاجامہ پہنا ہوا تھا۔ انتہائی تنگ اور چست قمیص نے اُس کے جسم کے نشیب و فراز خاصے واضح کردیے تھے۔ رہی سہی کسر اُس کا کھلا گریبان پوری کررہا تھا جس سے اس بھرپور جسم میں موجود جنت کا معمولی سا نظارا واضح تھا۔ سدرہ گھر میں داخل ہونے کے لیے مڑی تو اُس کی پشت نے رومی کے اندر مکمل آگ بھڑکادی۔ باریک پیلی قمیص کے ساتھ اُس کا سیاہ بریزر قیامت خیز امتزاج پیش کررہا تھا۔ رومی کا دل کیا کہ آگے بڑھے اور اسی وقت اس بھرے ہوئے جسم کو اپنی خالی بانہوں میں بھرلے۔
گھر میں خاموشی چھائی تھی لیکن رومی کے دل میں ایک ہنگاما برپا تھا۔ سدرہ نے اُسے اپنے بیڈروم میں بٹھادیا۔ دونوں باتیں کرنے لگے۔ اِدھر اُدھر کی باتیں۔۔۔ دوبدو دل کی باتیں کرنے میں جھجک محسوس ہوتی تھی۔ پھر اچانک سدرہ نے رومی کا ہاتھ پکڑلیا اور یہ جیسے جذبات کی ٹرین کا بھرپور انداز میں اپنی آمد کا اعلان تھا۔ وہ سرک کر سدرہ کے قریب آیا اور اُس کی کمر پر عین بریزر کے اوپر ہاتھ رکھ دیا۔ سدرہ اپنی بات ادھوری چھوڑ کر ایک دم گُم صُم ہوگئی۔ رومی اُس کی کمر سہلارہا تھا۔اور سدرہ اُس کے بہکتے ہوئے ہاتھ کی منزل کا بہ آسانی اندازہ کرسکتی تھی۔ پھر وہ ہاتھ آگے بڑھا اور سدرہ کے نشیب و فراز ناپنے لگا۔ سدرہ کی سانسوں میں ایک سسکار تھی۔ ایک پکار تھی۔
سدرہ پوری طرح رومی کی طرف مڑگئی۔ اُس کا دوپٹا سینے سے ڈھلک چکا تھا لیکن اُسے اب ہوش نہیں تھا۔ فون پر گفت گو فاصلوں کو اس قدر سمیٹ چکی تھی کہ اب حقیقت میں مزاحمت کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی تھی۔ رومی نے جھک کر گردن کو چوما، پھر ذرا سا نیچے گریبان کے پاس چوما، اور پھر اُس سے بھی نیچے سینے کو۔۔۔ رومی میں اس نئی دنیا کھوجنے کی تڑپ کسی بھی سیاح سے بڑھ کر تھی۔
"رومی! قمیص اتار دو۔" سدرہ نے رومی کی کھوج کو آسان بنانے کی از خود پیش کش کرڈالی اور رومی نے اُس کی بات پر ایسے عمل کیا جیسے وہ ہپناٹائز ہوچکا ہو۔ سیاہ بریزر میں سدرہ کا بھرپور گورا جسم رومی کے جذبات کو انتہائی بلندی پر لے گیا۔ وہ دیوانوں کی طرح اُسے چومنے اور اُس پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ پھر اُس نے ہمت کی اور ہاتھ پیچھے کرکے بریزر کھول دیا۔ دو گلابی نشانوں نے اُسے ایسا بپھرا ہوا شیر بنادیا تھا جس پر قابو پانا خود اُس کے بس میں بھی نہیں تھا۔ وہ اب سدرہ کے جسم کو چوم نہیں، چوس رہا تھا۔ اور سدرہ نے دونوں ہاتھوں سے اُس کا سر اپنے سینے پر دبایا ہوا تھا۔
پھر سدرہ کے ہاتھ حرکت میں آئے اور بے قراری سے رومی کی شرٹ کے بٹن کھولنے لگے۔رومی کی شرٹ اتری تو سدرہ کا نشہ بھی عروج پر پہنچ گیا۔ رومی نے اُسے بانہوں میں بھرا اور بستر پر سیدھا لٹادیا۔ اُس کے بعد سدرہ کا پاجامہ اور رومی کی پینٹ کو جسم سے دور ہونے میں ایک منٹ سے بھی کم لگا۔ حالانکہ سدرہ کے چوڑی دار پاجامے کو اُتارنے میں رومی کو اتنی مشکل ہوئی کہ اس کا دل پاجامہ تار تار کردینے کو کیا۔ وہ دونوں اب دنیا و مافیہا سے بے خبر ایک دوسرے میں گم تھے۔ صرف اُن کی پھولی ہوئی سانسیں تھیں جو پورے کمرے میں سنائی دے رہی تھیں۔ سدرہ نے آنکھیں بند کرلیں۔ یہ اشارہ تھا کہ اب سب کچھ تمھارے ہی حوالے ہے رومی۔ اور رومی اس پیغام سے اچھی طرح واقف تھا۔
"تیل کہاں ہے؟" رومی نے سوال کیا۔
"کیوں؟" سدرہ نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔ اُسے یہ سوال انتہائی غیرمتوقع لگا۔ اور سدرہ کے جوابی سوال کا رومی کے پاس کوئی واضح جواب نہیں تھا۔ یا یوں کہیے کہ اُس کے پاس جواب کے لیے مناسب الفاظ نہیں تھے۔
"ارے جان! بس چاہیے ہے نا۔ تم بتاؤ، کہاں رکھا ہے؟"
"اُدھر کونے میں، میز پر۔" سدرہ نے ایک اُلجھن کے ساتھ اشارہ کیا۔ یہ وہ بات تھی جو کبھی اُن کے درمیان فون پر نہیں ہوئی تھی۔
رومی چیتے کی سی پھرتی سے میز کی طرف لپکا اور تیل کی بوتل اُٹھاکر واپس اپنی جنت کی طرف بڑھا۔ اُس نے سدرہ کی دونوں ٹانگیں کھولیں اور تیل ٹپکایا۔ اب گیلے پن کے ساتھ چکناہٹ بھی شامل ہوچکی تھی جس نے آگے کا کام آسان کرنا تھا۔ رومی نے اپنے آلے پر بھی تیل لگایا اور پھر انتہائی وصل کے لیے بے حد قریب آگیا۔ایک انوکھے تجربے کے احساس کی سردی اور جذبات کی گرمی کی آمیزش نے اُن دونوں کو ہر چیز سے لاتعلق کردیا تھا۔ بس دونوں کے ذہن میں ایک ہی بات تھی کہ آج سب کچھ ہوجانے دو۔ اور وہ سب کچھ ہوگیا۔ رومی، سدرہ کے اندر داخل ہوا تو درد کے مارے اُس کی چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ اُس نے ایک آہ بھری۔ "رومی! آرام سے۔۔۔ درد ہورہا ہے۔"
لیکن اس پیغام کا اثر بالکل برعکس ہوا اور اس نے رومی کی رفتار سست کرنے کے بجائے مزید بڑھا دی۔ اُس کے دونوں ہاتھ سدرہ کے سینے کو دبا رہے تھے اور وہ سدرہ کی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں وصل کی انتہائی حالت میں موجود تھا۔ دو جسم ایک دوسرے سے ٹکراتے تھے تو اُن کی آواز پورے کمرے میں سنائی دیتی تھی۔ اور پھر جیسے ندی بہہ نکلی۔ دونوں نے بستر کی چادر کو اچھا خاصا گیلا کردیا تھا لیکن جذبات کا طوفان تھمنے کا نام نہ لیتا تھا۔ رومی کچھ دیر کے لیے سدرہ کے اوپر ہی دراز ہوگیا۔
پھر جگہیں بدلنے لگیں۔ کبھی کوئی اوپر تو کبھی کوئی نیچے۔ ایک طویل سفر طے کرکے پہنچنے والا طوفان اتنی جلدی کیسے تھم سکتا تھا۔ یوں ہی کافی وقت گزر گیا۔ دونوں جسم پیار کی پھوار میں بھیگے پڑے تھے۔ سدرہ نے ہمت کی اور رومی کا ہاتھ تھام کرکے غسل خانے میں لے آئی۔ دونوں جسموں پر پانی بہنے لگا اور جیسے جیسے پیار کا گزشتہ رنگ اترا، نیا رنگ چڑھنے لگا۔ رومی کا جی چاہا کہ سدرہ کو اب کبھی لباس زیب تن نہ کرنے دے لیکن ایسا ممکن نہیں تھا۔ اُس نے اپنے ہاتھوں سے سدرہ کو لباس پہنایا اور اس بہانے اُس کے جسم کو محسوس کرتا رہا۔ رومی کے لمس نے سدرہ کی سانسوں کو بے ترتیب کیے رکھا۔ اور جب رومی رخصت ہوا تو سدرہ کی آنکھوں میں دوبارہ ملاقات کا دعوت نامہ واضح نظر آرہا تھا۔
گھر میں خاموشی چھائی تھی لیکن رومی کے دل میں ایک ہنگاما برپا تھا۔ سدرہ نے اُسے اپنے بیڈروم میں بٹھادیا۔ دونوں باتیں کرنے لگے۔ اِدھر اُدھر کی باتیں۔۔۔ دوبدو دل کی باتیں کرنے میں جھجک محسوس ہوتی تھی۔ پھر اچانک سدرہ نے رومی کا ہاتھ پکڑلیا اور یہ جیسے جذبات کی ٹرین کا بھرپور انداز میں اپنی آمد کا اعلان تھا۔ وہ سرک کر سدرہ کے قریب آیا اور اُس کی کمر پر عین بریزر کے اوپر ہاتھ رکھ دیا۔ سدرہ اپنی بات ادھوری چھوڑ کر ایک دم گُم صُم ہوگئی۔ رومی اُس کی کمر سہلارہا تھا۔اور سدرہ اُس کے بہکتے ہوئے ہاتھ کی منزل کا بہ آسانی اندازہ کرسکتی تھی۔ پھر وہ ہاتھ آگے بڑھا اور سدرہ کے نشیب و فراز ناپنے لگا۔ سدرہ کی سانسوں میں ایک سسکار تھی۔ ایک پکار تھی۔
سدرہ پوری طرح رومی کی طرف مڑگئی۔ اُس کا دوپٹا سینے سے ڈھلک چکا تھا لیکن اُسے اب ہوش نہیں تھا۔ فون پر گفت گو فاصلوں کو اس قدر سمیٹ چکی تھی کہ اب حقیقت میں مزاحمت کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی تھی۔ رومی نے جھک کر گردن کو چوما، پھر ذرا سا نیچے گریبان کے پاس چوما، اور پھر اُس سے بھی نیچے سینے کو۔۔۔ رومی میں اس نئی دنیا کھوجنے کی تڑپ کسی بھی سیاح سے بڑھ کر تھی۔
"رومی! قمیص اتار دو۔" سدرہ نے رومی کی کھوج کو آسان بنانے کی از خود پیش کش کرڈالی اور رومی نے اُس کی بات پر ایسے عمل کیا جیسے وہ ہپناٹائز ہوچکا ہو۔ سیاہ بریزر میں سدرہ کا بھرپور گورا جسم رومی کے جذبات کو انتہائی بلندی پر لے گیا۔ وہ دیوانوں کی طرح اُسے چومنے اور اُس پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ پھر اُس نے ہمت کی اور ہاتھ پیچھے کرکے بریزر کھول دیا۔ دو گلابی نشانوں نے اُسے ایسا بپھرا ہوا شیر بنادیا تھا جس پر قابو پانا خود اُس کے بس میں بھی نہیں تھا۔ وہ اب سدرہ کے جسم کو چوم نہیں، چوس رہا تھا۔ اور سدرہ نے دونوں ہاتھوں سے اُس کا سر اپنے سینے پر دبایا ہوا تھا۔
پھر سدرہ کے ہاتھ حرکت میں آئے اور بے قراری سے رومی کی شرٹ کے بٹن کھولنے لگے۔رومی کی شرٹ اتری تو سدرہ کا نشہ بھی عروج پر پہنچ گیا۔ رومی نے اُسے بانہوں میں بھرا اور بستر پر سیدھا لٹادیا۔ اُس کے بعد سدرہ کا پاجامہ اور رومی کی پینٹ کو جسم سے دور ہونے میں ایک منٹ سے بھی کم لگا۔ حالانکہ سدرہ کے چوڑی دار پاجامے کو اُتارنے میں رومی کو اتنی مشکل ہوئی کہ اس کا دل پاجامہ تار تار کردینے کو کیا۔ وہ دونوں اب دنیا و مافیہا سے بے خبر ایک دوسرے میں گم تھے۔ صرف اُن کی پھولی ہوئی سانسیں تھیں جو پورے کمرے میں سنائی دے رہی تھیں۔ سدرہ نے آنکھیں بند کرلیں۔ یہ اشارہ تھا کہ اب سب کچھ تمھارے ہی حوالے ہے رومی۔ اور رومی اس پیغام سے اچھی طرح واقف تھا۔
"تیل کہاں ہے؟" رومی نے سوال کیا۔
"کیوں؟" سدرہ نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔ اُسے یہ سوال انتہائی غیرمتوقع لگا۔ اور سدرہ کے جوابی سوال کا رومی کے پاس کوئی واضح جواب نہیں تھا۔ یا یوں کہیے کہ اُس کے پاس جواب کے لیے مناسب الفاظ نہیں تھے۔
"ارے جان! بس چاہیے ہے نا۔ تم بتاؤ، کہاں رکھا ہے؟"
"اُدھر کونے میں، میز پر۔" سدرہ نے ایک اُلجھن کے ساتھ اشارہ کیا۔ یہ وہ بات تھی جو کبھی اُن کے درمیان فون پر نہیں ہوئی تھی۔
رومی چیتے کی سی پھرتی سے میز کی طرف لپکا اور تیل کی بوتل اُٹھاکر واپس اپنی جنت کی طرف بڑھا۔ اُس نے سدرہ کی دونوں ٹانگیں کھولیں اور تیل ٹپکایا۔ اب گیلے پن کے ساتھ چکناہٹ بھی شامل ہوچکی تھی جس نے آگے کا کام آسان کرنا تھا۔ رومی نے اپنے آلے پر بھی تیل لگایا اور پھر انتہائی وصل کے لیے بے حد قریب آگیا۔ایک انوکھے تجربے کے احساس کی سردی اور جذبات کی گرمی کی آمیزش نے اُن دونوں کو ہر چیز سے لاتعلق کردیا تھا۔ بس دونوں کے ذہن میں ایک ہی بات تھی کہ آج سب کچھ ہوجانے دو۔ اور وہ سب کچھ ہوگیا۔ رومی، سدرہ کے اندر داخل ہوا تو درد کے مارے اُس کی چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ اُس نے ایک آہ بھری۔ "رومی! آرام سے۔۔۔ درد ہورہا ہے۔"
لیکن اس پیغام کا اثر بالکل برعکس ہوا اور اس نے رومی کی رفتار سست کرنے کے بجائے مزید بڑھا دی۔ اُس کے دونوں ہاتھ سدرہ کے سینے کو دبا رہے تھے اور وہ سدرہ کی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں وصل کی انتہائی حالت میں موجود تھا۔ دو جسم ایک دوسرے سے ٹکراتے تھے تو اُن کی آواز پورے کمرے میں سنائی دیتی تھی۔ اور پھر جیسے ندی بہہ نکلی۔ دونوں نے بستر کی چادر کو اچھا خاصا گیلا کردیا تھا لیکن جذبات کا طوفان تھمنے کا نام نہ لیتا تھا۔ رومی کچھ دیر کے لیے سدرہ کے اوپر ہی دراز ہوگیا۔
پھر جگہیں بدلنے لگیں۔ کبھی کوئی اوپر تو کبھی کوئی نیچے۔ ایک طویل سفر طے کرکے پہنچنے والا طوفان اتنی جلدی کیسے تھم سکتا تھا۔ یوں ہی کافی وقت گزر گیا۔ دونوں جسم پیار کی پھوار میں بھیگے پڑے تھے۔ سدرہ نے ہمت کی اور رومی کا ہاتھ تھام کرکے غسل خانے میں لے آئی۔ دونوں جسموں پر پانی بہنے لگا اور جیسے جیسے پیار کا گزشتہ رنگ اترا، نیا رنگ چڑھنے لگا۔ رومی کا جی چاہا کہ سدرہ کو اب کبھی لباس زیب تن نہ کرنے دے لیکن ایسا ممکن نہیں تھا۔ اُس نے اپنے ہاتھوں سے سدرہ کو لباس پہنایا اور اس بہانے اُس کے جسم کو محسوس کرتا رہا۔ رومی کے لمس نے سدرہ کی سانسوں کو بے ترتیب کیے رکھا۔ اور جب رومی رخصت ہوا تو سدرہ کی آنکھوں میں دوبارہ ملاقات کا دعوت نامہ واضح نظر آرہا تھا۔
No comments:
Post a Comment