Naazuk Guriya

ارسلان رات کو بستر پر لیٹا تو شدید تھکن کے باوجود اُسے نیند میں جانا خاصا دشوار محسوس ہوا۔ اُس کی آنکھوں میں بار بار وہی ایک منظر گھومتا رہا جس نے اُس کے دل و دماغ میں ہلچل مچارکھی تھی۔ کوئی شخص غیر متوقع طور پر اچانک آپ کے قریب اور بہت قریب آجائے تو کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ آپ کے جذبات اور احساسات آپ کے قابو سے باہر ہونے لگتے ہیں۔
اُس رات اُس  کی کزن کی شادی ہوئی تھی۔ رخصتی کے بعد جب واپسی کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ بھی ہائی۔روف کے پاس آکر کھڑا ہوگیا جس میں اُسے گھر جانا تھا۔ ہائی روف کی سب سے پچھلی کھڑکی کی طرف اُس کی ایک چھوٹی کزن نمرا بیٹھی تھی جو نویں جماعت کی طالبہ تھی۔ اُس نے اشارے سے پاس بلایا۔ ارسلان اُس کے پاس گیا تو نمرا اُس کے کانوں کے پاس آکر بولی کہ آج بہت اچھے لگ رہے ہو اور پھر فوراً اُس کے گال چوم لیے۔ یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ ارسلان اُس وقت تو سمجھ ہی نہیں سکا کہ یہ سب کیا ہوگیا۔ لیکن جب اُس رات وہ بستر پر سونے لیٹا تو اُسے یہی منظر ستاتا رہا، اُس کے دل میں جذبات اور خواہشات کا سمندر ابلنے لگا۔
نمرا کا گھر ارسلان کے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا۔ کئی دن بعد کسی کام سے اُس کا جانا نمرا کے گھر ہوا تو گھر میں صرف نمرا اور اُس کی امی یعنی ارسلان کی خالہ ہی تھیں۔ خالہ باورچی خانے میں کام کررہی تھیں تو ارسلان نے تھوڑی دیر کے لیے دوسرے کمرے میں جاکر کمپیوٹر کھول لیا۔ تھوڑی دیر بعد نمرا آئی اور اُس کا ہاتھ تھام کر اپنا سر اُس کے کاندھے پر رکھا اور اُس کے پاس بیٹھ گئی۔ ارسلان کے جذبات ایک بار پھر قابو سے باہر ہونے لگے۔ اُس نے نمرا کی طرف دیکھا تو وہ مسکرائی اور اُس نے اپنے ہونٹ ارسلان کے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ دنیا کے سارے ذائقے ہونٹوں کے ملاپ کے مقام پر جمع ہونے لگے، مدہوشی چھانے لگی، فضا میں رنگ بھر گئے؛ لیکن خالہ جان گھر ہی میں تھیں۔ اُنھیں لمحے بھر کا لطف لینے کے بعد الگ ہونا پڑا۔ دل میں جذبات کا ایک طوفان تھا جسے سنبھالنا پڑا۔ ارسلان وہاں سے اُٹھ گیا اور خالہ کےگھر سے اُسے جو سامان لینا تھا وہ لے کر اپنے چلا آیا۔ گرمی کے بہانے اُس نے نہانے کے لیے غسل خانے کا رُخ کیا اور پھر۔۔۔ وہ طوفان ایک ریلے کی صورت میں بہادیا۔
لیکن وہ آگ جو ایک بوسے سے جل اُٹھی تھی وہ بجھنے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔ گال پر بوسے نے اگر چنگاری لگائی تھی تو ہونٹوں پر بوسے نے ایک الاؤ روشن کردیا تھا۔ سوتے جاگتے، چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے، وہی ایک خیال تھا۔ زندگی کی تمام تر خواہشات اُس ایک مرکز کے گرد دائرے میں گھومنے لگیں، خیالات سکڑگئے، سارے رنگ اور رعنائیاں نمرا تک محدود ہوگئے۔
ایک دن نمرا کے گھر والے ارسلان کے گھر آئے ہوئے تھے۔ نمرا کے امتحانات ہونے والے تھے، شاید اسی لیے وہ تیاری کی خاطر اپنے گھر پر ہی رُک گئی۔ ارسلان کے ذہن میں یک دم ایک خیال کوندا۔ اُسے محسوس ہوا کہ اس سے بہتر موقع اُسے اتنی آسانی سے نہیں مل سکے گا۔ وہ گھر میں دوست سے ملنے کا بہانا کرکے نمرا کے گھر کی طرف ہولیا۔ نمرا اُسے دیکھ کر حیران رہ گئی۔
’’آپ؟ یہاں کیسے؟‘‘ نمرہ نے متحیر انداز میں پوچھا۔
’’اپنی گڑیا کے لیے آیا ہوں۔‘‘ ارسلان نے رومانوی انداز میں جواب دیا۔
ارسلان کی سانس پھولی ہوئی تھی۔ اُس نے نمرا کو پانی لانے کا کہا اور خود ڈرائنگ روم میں جاکر بیٹھ گیا۔ پانی پلانے کے بعد نمرا جب گلاس رکھ کر آئی تواس سے پہلے کہ وہ ارسلان کے برابر میں صوفے پر بیٹھتی، اُس نے نمرا کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اپنی گود میں بٹھالیا۔ اُس نازک سی گڑیا کا وزن برداشت کرنا اُس کے لیے مشکل نہ تھا۔ دو جسم جیسے یک جان ہوگئے۔ دھڑکنوں کی رفتار تیز ہوگئی، دونوں نے ایک دوسرے کو اپنی بانہوں میں ایسے بھینچا ہوا تھا کہ سینے کے اُبھار محسوس ہورہے تھے۔ کچھ وقت تو ہونٹوں کے وصل ہی میں گزرگیا۔ گیلے ہونٹ تشنگی بجھانے سے قاصر تھے، آگ ٹھنڈی کرنے میں ناکام تھے۔ ارسلان نے تھوڑی جھجک کے بعد اپنے ہاتھوں سے نمرا کا جسم ٹٹولنا شروع کیا۔ دل کے قریب پہنچ کر جیسے آگے بڑھنے کا جی ہی نہیں کیا۔ اُس کی انگلیاں پستان کے گرد دائرہ بنانے لگیں۔ نمرا کو سب کچھ یاد تھا مگر کچھ بھی یاد نہیں تھا۔ وہ روکنا چاہتی بھی تھی اور نہیں بھی۔ لیکن جب ارسلان نے آگے بڑھنے میں دیر کی تو نمرا نے خود ہی اپنی قمیص اُتارکر اُس کے مدہوش ہونے کا سامان پیدا کردیا۔ ارسلان کی آنکھیں حسن سے خیرہ ہونے لگیں۔ چھوٹا سا بریزر (Brassiere) نمرا کے سینے پر دو رس بھرے پھلوں کو چھپانے کی سرتوڑ کوشش کررہا تھا۔ ارسلان نے اُس پر بوسوں کی بارش کردی۔ وہ اُسے چومتا رہا اور نمرا کے پاس جیسے الفاظ ہی نہیں رہے، اُس کے منہ سے نکلنے والے الفاظ دنیا کی کسی زبان کی لغت میں نہیں ملتے۔ وہ محبت کی زبان تھی، بے قابو جذبات کے بہاؤ کی زبان۔ اُسے بس وہی انسان سمجھ سکتا تھا جس کی گود میں وہ سوار تھی، جس کی آغوش میں اُس کا جسم پھڑک رہا تھا۔ ارسلان کا ہاتھ اُس کی کمر پر پہنچا اور بریزر کا کانٹا (hook) کھول دیا۔ بے قابو ہوتی پستانوں (breasts) کو آزادی مل گئی، بریزر ڈھیلا پڑگیا۔ نمرا کے جسم کو چومتے چومتے ارسلان کے ہونٹ اُن دو پھلوں کی طرف آگئے جسے آج تک کسی نے نہیں چکھا تھا۔ چھوٹی سی چونچ (nipple) پر ارسلان کے ہونٹ محسوس ہوئے تو نمرا نے ایک سسکار بھری اور پھر ارسلان کا نام پکارنے لگی۔
ارسلان نے اُسے صوفے پر بٹھادیا اور اپنی شرٹ اُتارکر اُس کی ٹانگوں کے بیچ میں آگیا۔ نمرا بے خودی کے عالم میں مدہوش آنکھوں سے سب کچھ ایسے دیکھ رہی تھی جیسے یہ کسی فلم کا منظر ہو۔ ارسلان نے اُس کی شلوار نیچے کرنا شروع کی تو اُس نے بے جان سے مزاحمت کی۔ ایسی مزاحمت جس کا پیغام تھا کہ دیکھو، میں لاکھ منع کروں لیکن تم کرگزرو، مجھے برہنہ کردو، میرے حسن سے اپنی آنکھیں بھرلو! اور ارسلان نے ایسا ہی کیا۔
نمرا صوفے پر برہنہ حالت میں گری ہوئی تھی۔ اس کی ٹیک صوفے پر لگی تھی اور ٹانگیں نیچے لٹک رہی تھیں۔ کھلے ہوئے بال اُس کے کاندھوں پر بکھرے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسی کوئی دودھ سے دُھلی پری آسمان سے صوفے پر آگری ہو۔ نہ جانے کتنی دیر تک ارسلان اُس کے جسم پر اپنے ہونٹوں کے سجدے سجاتا رہا اور اُس کا ہاتھ نمرا کے سینے پر موجود دو پھلوں کو نچوڑ نچوڑ کر اُن سے وہ رَس نکالنے کی کوشش کرتا رہا جو شاید اب تک اُن میں بھرا ہی نہیں تھا۔
نمرا نے اپنے لرزتے ہاتھ ارسلان کی پینٹ پر رکھے تو اُس نے جھٹ سے پینٹ اُتار دی۔ اُس کا آلہ اُس کے زیر جامہ (underwear) سے نکلنے کے لیے کچوکے ماررہا تھا۔ اُس نے نمرا کو صرف ایک بار چومنے کی مہلت ہی دی اور پھر وہ آخری پردہ بھی گرادیا۔ دو جسم فطری لباس میں ایک دوسرے کے قریب موجود تھے۔۔۔ بے حد قریب! ایک دوسرے میں سماجانے کی جدوجہد کرتے ہوئے۔ اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کس طرح اپنے جذبات کو ٹھنڈا کرے۔ کسی بھی وقت نمرا کے گھر والے واپس آسکتے تھے۔
نمرا کی ٹانگوں کے بیچ میں چھوٹا سا باغ آباد تھا۔ ارسلان کے پے در پے بوسوں نے جلد ہی اس باغ کو گیلا کردیا۔ نمرا نے اُس کی گردن کے گرد اپنے ہاتھوں کا گھیرا ڈالا تو اُس نے بے اختیار ہوکر اُسے اپنی گود میں اُٹھالیا اور ہونٹوں کو چومتا ہوا غسل خانے کی طرف بڑھ گیا۔ شاور کے نیچے کھڑے ہوکر اُس نے نمرا کو سینے سے لگالیا اور شاور کھول دیا۔ پانی دونوں کے جسم کو چھوکر بہنے لگا تو دونوں جسم جیسے سورج کی طرح چمکنے لگے۔ ارسلان کا ایک ہاتھ اُس کے آلے کے ساتھ زور آزمائی کرنے لگا یہاں تک کہ اُس کے جذبات کا ریلا پانی کے ساتھ بہہ نکلا۔
اُن دو پریمیوں کا بس چلتا تو وہ ساری زندگی قربت کے ان ہی لمحات میں گزار دیتے لیکن وقت جیسے جیسے گزرتا گیا اُن کے قربت کا موقع سمٹتا چلا گیا۔بڑی مشکل سے دونوں نے ایک دوسرے کو خود سے علاحدہ کیا اور ایک دوسرے کو کپڑے پہنانے میں مدد دی۔ ارسلان نے دروازے پر پہنچ کر نمرا کو اپنی بانہوں میں بھرکر ایک بھرپور بوسا دیا اور اگلی بار محبت کا مزید لطف دینے کا وعدہ کرکے گھر لوٹ آیا۔

No comments:

Post a Comment