Serial Killers (Ep.1)

Serial Killers
جنسی جذبوں کی داستان پر مشتمل ایک منفرد ناول
(تحریر: ایمائل زین ۔۔۔۔۔ اردو کہانی کے لیے خصوصی تحریر)

صارم اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا۔ اُس کے سامنے شام کا ایک گھٹیا اخبار پڑھا تھا جسےوہ وقت گزاری کے لیے پڑھ رہا تھا۔ شام کے اکثر اخبارات کی گھٹیا خبریں اُسے لطیفے سے کم نہیں لگتی تھیں اور وہ اُنھیں دلچسپی کی خاطر پڑھا کرتا تھا۔ اس وقت بھی اس کی توجہ کا مرکز ایسی ہی ایک خبر تھی۔ خبر کے مطابق:
"شہر کے مضافاتی علاقے سے ایک نوجوان شخص بری حالت میں ملا جس کے جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔ ڈاکٹروں کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق اس کو ایک سے زائد لڑکیوں نے کئی دن تک مسلسل جنسی فعل کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ نوجوان کو فوری طبی امداد دی گئی لیکن وہ اندرونی و بیرونی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔"
صارم نے مزے لے لے کر یہ خبر کئی بار پڑھی اور زیرِ لب مسکرایا۔ اُس نے سوچا، ایسی لڑکیاں مجھے کیوں نہیں ملتیں جو میری آگ بجھاسکیں۔ پھر اُس نے اپنے اس خیال پر زوردار قہقہہ لگایا اور اخبار تہ کرکے رکھ دیا۔
۔۔۔۔۔
صارم مقامی پولیس میں انسپکٹر کے عہدے پر فائز تھا۔ اُس کا جسم کسرتی اور بھرپور تھا۔ اُسے پولیس میں بھرتی ہوئے بہ مشکل ایک سال کا عرصہ گزرا تھا لیکن اُس نے علاقے میں اپنی جان پہچان بنالی تھی۔ اُس کی عادت تھی کہ وہ لوگوں میں گھل مل جاتا، ہنسی مذاق کرتا اور بوڑھوں کا خیال رکھتا۔ اسی لیے اُس کے علاقے کے لوگ اُسے پسند کرتے تھے۔ اکثر جب کوئی شخص اُس کی تعریف کرتا تو وہ ہنس کر کہتا: "ارے کیا خاک اچھا ہوں میں۔ اتنا اچھا ہوتا تو آج تک کنوارا نہ ہوتا۔"
۔۔۔۔۔
نادر رکشہ چلاتا تھا۔ اُس کی شادی کو ایک مہینہ ہونے کو آیا تھا لیکن محبت کا خمار تھا کہ اُترنے کا نام نہ لیتا تھا۔ اُس کی بیوی، ناہیدہ ایک سیدھی سادی، کم تعلیم یافتہ مگر خوب صورت عورت تھی۔ سہاگ رات کو جب نادر نے اُس کے جسم سے کپڑے کا ایک ایک تار دور کردیا، تو اُسے لگا جیسے اُسے دنیا ہی میں حور مل گئی ہے۔ لمبے بال، صاف رنگت، پتلی کمر اور سینہ اتنا اُبھرا ہوا کہ ہوش گم ہوجائیں۔ شادی کی پہلی رات جب تک نادر تھک کر چور نہیں ہوگیا، اُس نے ناہیدہ کو ذرا بھی دم لینے نہیں دیا۔ کبھی اوپر، کبھی نیچے، کبھی ایک طرف تو کبھی دوسری طرف۔ اگلی صبح ناہیدہ کے کنوارے جسم کا انگ انگ اُس کے عورت بن جانے کی گواہی دے رہا تھا۔
نادر کا جی چاہتا تھا کہ وہ سب کام چھوڑ دے اور چوبیس گھنٹے اپنی بیوی کے ساتھ رہے۔ وہ گھر سے نکلتے وقت ناہیدہ پر آخری نظر ڈالتا تو ناہیدہ کا سینہ اُسے دعوت دیتا نظر آتا اور اُس کا جی چاہتا کہ وہ گھر ہی میں رہے۔ وہ سواریوں کے انتظار میں کھڑا ہوتا تو آتے جاتے ہر لڑکی کے سراپے میں ناہیدہ تلاش کرتا۔ ہر خوب صورت لڑکی کو دیکھ کر اُسے ناہیدہ یاد آتی اور اُس کے جسم میں ہلچل پیدا ہوجاتی۔
جولائی کا مہینہ تھا۔ گرمی اپنے عروج پر تھی۔ نادر سواری کا انتظار کرتے ہوئے ناہیدہ کے خیالات میں گم ہوچکا تھا کہ ایک نسوانی آواز اُس کو خیالات کی دنیا سے باہر لے آئی۔
"نور آباد جاؤگے؟"
دو خوب صورت لڑکیاں ہاتھوں میں بھاری تھیلے لیے جواب کی منتظر تھیں۔ نادر نے فوراً ہاں کردی۔ مناسب کرایہ طے ہوگیا۔ تمام راستے نادر آئینے کی مدد سے اپنی دونوں سواریوں کا کڑی نظروں سے جائزہ لیتا رہا۔ دونوں لڑکیوں کی عمر 25 سال کے لگ بھگ تھی۔ لباس کی تراش خراش سے اونچے گھر کی لگتی تھیں۔ ایک نے ڈھیلا ڈھالا چھوٹا سا کرتا اور چست جینز پہن رکھی تھی جب کہ دوسری نے کھلے گریبان کی چست قمیص اور شلوار پہنی ہوئی تھی۔ پسینے میں بھیگی ہوئی ہونے کی وجہ سے دونوں کے باریک کپڑے اُن کے جسم سے چپکے ہوئے تھے اور زیر جامے واضح دکھائی دیتے تھے۔ نادر کی نگاہوں میں ناہیدہ کا جسم پھرنے لگا۔ وہ واحد نسوانی جسم جسے نادر نے ہر ہر زاویے سے مکمل طور پر دیکھا اور جانچا تھا۔
ان ہی خیالات میں منزل آگئی۔ لڑکیوں نے اُتر کر کرایہ ادا کیا۔ ایک لڑکی بولی:
"مہربانی کرکے یہ سامان اندر رکھوادیں۔ کافی وزنی ہے۔"
نادر نے اُٹھ کر تھیلے اُٹھائے اور لڑکیوں کے پیچھے گھر میں داخل ہوگیا۔ ایک کمرے میں اُس نے تھیلے رکھ دیے اور واپس جانے کے لیے مڑا۔
"بہت بہت شکریہ۔ باہر گرمی بہت ہے۔ میں آپ کو ٹھنڈا شربت پلاتی ہوں۔"
چست قمیص والی نے کہا۔ نادر نے شکریہ ادا کرکے جانا بھی چاہا لیکن اُس لڑکی نے اصرار کرکے روک لیا۔ نادر وہیں کرسی پر بیٹھ گیا۔ لڑکی کمرے سے جانے کے لیے مڑی تو نادر کا دل تیز تیز دھڑکنے لگا۔ لان کی باریک قمیص سے جھانکتا ہوا سیاہ بریزر اور ہلتے ہوئے بڑے بڑے کولہوں نے نادر کے لیے درجہ حرارت مزید بڑھادیا اور اُس کے ہونٹ خشک ہونے لگے۔ اُس نے کسی پیاسے مسافر کی طرح اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری۔ اُس لڑکی نے آنے میں دیر نہیں کی۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ واپس لوٹی تو اُس کے ہاتھ میں شربت سے بھرا گلاس تھا۔ شاید گرمی کی وجہ سے اُس نے دوپٹا اتار پھینکا تھا اور اُس کی چست قمیص کو پھاڑنے کے لیے چھاتیاں بے چین نظر آرہی تھیں۔ نادر نے خود پر قابو پاتے ہوئے گلاس لیا اور  جلدی جلدی گھونٹ بھرنے لگے۔ لڑکی اُس کے سامنے ہی بیٹھ گئی۔ شربت ختم کرکے نادر جیسے ہی واپس جانے کے لیے اُٹھا اُسے شدید چکر آیا۔ اُس نے کرسی کا ہتھا پکڑکر خود کو سنبھالنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا اور فرش پر گرپڑا۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔
۔۔۔۔۔
اُن کے سامنے اپنا شکار بے ہوش پڑا تھا۔  اگرچہ اُن کا ارادہ آج شکار کرنے کا نہیں تھا لیکن خریداری سے واپسی پر رکشے والے کی نگاہوں نے اُنھیں خیال دلایا کہ کیوں نہ اسے ہی پھانسا جائے۔ رومانہ نے اُسے شربت میں نشہ آور دوا ملاکر پلادی تھی اور وہ بے چارا جو پہلے ہی نوجوان جسموں کے حسن میں مدہوش ہورہا تھا، ہوش سے بالکل ہی ہاتھ دھوبیٹھا۔
رومانہ اور صوفیہ نے ایک نظر رکشہ ڈرائیور پر ڈالی اور فیصلہ کیا کہ اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے جائیں۔ رومانہ آگے بڑھی اور اُس کے کپڑے اُتارنے لگی۔ اُس کی بے تابی دیکھ کر صوفیہ مسکرائی اور ثنا کو فون کرنے لگی۔ عیاشی کا وقت قریب آپہنچا تھا۔
۔۔۔۔۔
نادر کی آنکھیں کھلیں تو کمرے میں نیم تاریکی کا سماں تھا۔ ایک کونے میں لگا زیرو بلب کمرے میں روشنی کا واحد منبع تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ کون سی جگہ ہے او ر کیا وقت ہوا ہے۔ اچانک اُسے عجیب سا احساس ہوا۔ اُس نے اپنے بدن کی طرف دیکھا۔ وہ بالکل برہنہ تھا۔ اُس کے ہاتھ کمر کے پیچھے بندھے ہوئے تھے اور ٹانگوں کو بھی سختی سے باندھا گیا تھا۔اُس نے ذہن پر زور دیا۔ اُسے آہستہ آہستہ تمام واقعہ یاد آنے لگا۔ "کیا مجھے ان لڑکیوں نے اغوا کرلیا ہے؟ کیا تاوان طلب کیا جائے گا؟ کیا میں نے کوئی جرم کیا تھا؟ کیا میرا ریپ کیا جائے گا؟" نادر کو جھرجھری آگئی۔
"کوئی ہے؟؟؟" وہ چلایا۔
اچانک دروازہ کھلا اور کمرہ دل آویز خوش بو سے مہک اُٹھا۔ نادر کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں۔ دوپہر کی مسافر لڑکیوں میں سے ایک لڑکی اُس کے سامنے لباسِ شب خوابی میں کھڑی تھی۔ اُس لباس میں وہ نیم برہنہ ہی تھی۔
"رومانہ، ثنا۔۔۔ دیکھو، ہمارے شکار کو ہوش آگیا ہے۔" لڑکی نے مسکراتے ہوئے آواز لگائی۔
پھر وہ لڑکی قریب آگئی۔۔۔ اتنا قریب کہ اُس کی سانسوں کی گرمی نادر کو محسوس ہونے لگی۔ لڑکی کی تیز نگاہیں نادر کے جسم کے اُن اعضا پر جمی تھیں جنھیں وہ چھپانا چاہتا تھا۔ اُس نے اپنے آپ میں سمٹنے کی ناکام کوشش کی۔ اور پھر دروازے پر دو لڑکیاں نظر آئیں۔ ایک لڑکی نے چست شرٹ اور جینز پہنی ہوئی تھی جب کہ دوسری نے جسم کو ڈھکنے کے لیے کپڑوں کے دو چیتھڑوں سے زیادہ زحمت گوارا نہیں کی تھی۔ بلاشبہ تینوں لڑکیاں حسن و جمال میں بے مثال تھیں۔ کچھ لمحات کے لیے نادر اپنا خوف کی سردی بھول کر حسن کی گرمی محسوس کرنے لگا۔ تینوں لڑکیوں کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ تھی۔ رومانہ آگے بڑھی اور نادر کے جسم پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ سینے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اُس کا ہاتھ رفتہ رفتہ نیچے کی طرف بڑھنے لگا۔ وہ اب اُس کی ناف تک پہنچ چکی تھی۔ نادر کو گدگدیاں محسوس ہونے لگیں۔ وہ خوف اور لذت کے درمیان تلوار پر لٹکا ہوا تھا۔ پھر اچانک رومانہ نے نادر کا خاص عضو پکڑلیا۔ نادر کے منہ سے ایک سسکاری نکلی اور اس کے ساتھ ہی اُس کی کمر پر صوفیہ نے زوردار لات رسید کی۔ وہ درد سے کراہ اُٹھا۔ تینوں مسکرانے لگیں۔
"نہیں میری جان، مزا لینے کا حق صرف ہمیں ہے۔ تمھیں تو بس درد برداشت کرنا ہے۔" صوفیہ نے دل ربا ادا سے کہا لیکن اُس کے تیور خوف ناک تھے جن کا عکس نادر کی آنکھوں میں واضح دکھائی دے رہا تھا۔
ثنا قریب آئی اور اُس نے اپنے جسم کی اوپری دھجی اتار پھینکی۔ نادر کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں۔ ثنا کی بھاری چھاتیاں تمام تر صورتِ حال بھلاکر اُس کے جذبات جگانے لگیں۔ بلاشبہ وہ جنسی حسن سے بھرپور لڑکی تھی۔ ثنا نے اُس کا سر پکڑ کر اپنے سینے پر دبادیا۔
"چوسو اسے۔" ثنا نے کہا اور نادر چھوٹے بچوں کی طرح چوسنے لگا۔ اچانک اُس کے ہونٹوں کی گرفت چھاتیوں سے ڈھیلی پڑنے لگی۔ اُسے لگا کہ وہ فارغ ہونے والا ہے۔ رومانہ اُس کے عضو کو منہ میں لیے لالی پاپ کی طرح چوسے جارہی تھی۔ نادر نے آنکھیں بند کرلیں اور اس کیفیت کا بھرپور مزا لینا چاہا۔ لیکن اگلے ہی پل صوفیہ نے اس کے بال کھینچے اور اپنے ناخن اس کے شانے میں گھسادیے۔ درد کی ایک لہر سے وہ جھٹکا کھاکر رہ گیا اور اُس کا جنسی جوش اچانک ہوا ہونے لگا۔ رومانہ بے خبر نہیں تھی۔ اُس نے اس ادا سے عضوِ خاص کی پذیرائی کی کہ وہ ڈھیلا نہ پڑا اور پھر طوفان بہ  نکلا۔ کچھ قطرے رومانہ کے منہ پر پڑے جس کا بدلہ اُس نے اس طرح لیا کہ باقی تمام مادہ اپنے ہاتھ میں لے کر نادر کے منہ پر مل دیا۔ کراہیت سے اُس کو قے آتے آتے رہ گئی۔ اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اُس کا منہ ثنا کی چھاتیوں پر نہیں رہا۔ ثنا نے اُس کے بال پکڑے اور ایک بار پھر اس کے منہ میں اپنی دائی چھاتی پھنسادی۔ صوفیہ اب اُس کی ٹانگوں کے پاس آچکی تھی اور اس کی رانوں کو سہلارہی تھی۔ رومانہ نے اپنا لباسِ شب خوابی اُتار دیا۔ اُس کا جسم سانولا تھا لیکن چھاتیوں اور کولہوں کی گولائی غضب کی تھی۔ کوئی دوسرا موقع ہوتا تو نادر اس قیامت جسم کو دیکھ کر ہوش گنوا بیٹھا ہوتا لیکن اس وقت تو اُس کے ہوش پہلے ہی ٹھکانے پر نہیں تھی۔ اُسے اجنبی جگہ سے خوف تھا، اجنبی لڑکیوں کا ڈر تھا، اپنے انجام کی فکر تھی، اور چہرے پر لگی غلاظت سے کراہیت ہورہی تھی۔ اس صورتِ حال میں اُس سے کچھ بھی سوچا نہیں جارہا تھا۔
صوفیہ نے اپنی شرٹ اتاری اور عضوِ نازک منہ میں لے کر پہلے ہی لمحے میں چوسنے کے ساتھ ساتھ دانتوں سے ہلکا سا کاٹ ڈالا۔ نادر چیخ کر رہ گیا۔ اُسے شدید درد ہونے لگا۔ رومانہ اُٹھی اور ثنا کے جسم سے لباس کی دوسری دھجی بھی الگ کرنے لگی۔ اب صرف رومانہ تھی جس کے جسم پر پینٹ باقی تھی۔ وہ اوندھی لیٹ گئی اور  نادر کا جسم سہلانے لگی۔ صوفیہ اُس کے پاس آئی اور آہستہ سے اُس کی پینٹ بھی اُتار دی۔ اب کمرے میں عریانیت کا راج تھا۔ چار برہنہ جسم مدہوش تھے، نشے میں اور درد میں۔
نادر کے خاص عضو میں ایک بار پھر جان پڑنے لگی۔ اگرچہ نادر کو کافی کم زوری محسوس ہورہی تھی۔ اُس نے پچھلے دنوں کئی بار اپنی بیوی کے ساتھ ہم بستری کی تھی۔ اُس میں سکت نہیں تھی اور درد کا احساس الگ۔ رومانہ کبھی اُسے ایک لات رسید کرتی تو کبھی اُس کے بال پکڑ کر کھینچ ڈالتی۔ صوفیہ اُس کی ٹانگوں کے اوپر آکر بیٹھ گئی اور اُس کا عضو اپنے اندامِ نہانی میں ڈالنے لگی۔ نادر کو کپکپی چڑھنے کا احساس ہورہا تھا۔ اُس کا عضو صوفیہ کے جسم میں ذرا سا داخل ہوا اور پھر اچانک صوفیہ پورا بیٹھ گئی۔ دھپ کی آواز سے عضوِ خاص نے صوفیہ کی دنیا سے وصل کیا۔ صوفیہ کی ہلکی سی چیخ اور نادر کی سسکاری سنائی دی۔ رومانہ اب صوفیہ کے سامنے آکر ایسے کھڑی ہوگئی کہ اُس کا منہ عین رومانہ کی ٹانگوں کے بیچ میں آباد جنگل پر تھا۔ صوفیہ اپنی زبان سے اُس جنگل کو سیراب کرنے لگی اور آہستہ آہستہ اوپر نیچے ہوتے ہوئے نادر کا عضو اندر باہر کرنے لگی۔ ثنا اب نادر کو مجبور کررہی تھی کہ وہ اس کی چھاتیاں منہ میں لیے رکھے۔ وہ عجیب مشکل میں تھا۔ ایک ساتھ تین لڑکیوں کو سنبھالنے کا اُس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا اور اب اُسے سمجھ نہیں آرہا کہ وہ کس کی طرف توجہ کرے۔
صوفیہ نے اُس کے اوپر اُچھلنے کی رفتار تیز کردی تھی اور اچانک نادر کے منہ سے 'آہ آہ' کی آوازیں نکلنے لگیں۔ صوفیہ فوراً اُس کے اوپر سے ہٹ گئی۔ شاید اُسے اندازہ ہوگیا تھا کہ اب نادر کسی بھی وقت فارغ ہوسکتا ہے۔ ثنا نے اپنے ناخن اُس کے جسم میں کھبودیے اور صوفیہ اُس کے عضو کو اپنی مٹھی میں لے کر زور سے مسلنے لگی جب کہ اُس کا منہ اب تک رومانہ کے جنگل ہی پر تھا۔ اور نادر ایک بار پھر چھوٹ گیا۔ اُس نے اس خیال سے آنکھیں بند کرلیں کہ دوبارہ اُس کا منہ گندا کیا جائے گا۔ اب کی بار صوفیہ نے سارا مادہ اُٹھاکر اُس کی کمر پر مل دیا۔ نادر کو مزید الجھن ہونے لگی۔
اب رومانہ نے صوفیہ کی جگہ سنبھال لی۔ وہ نادر کی ٹانگوں پر آبیٹھی اور اُس کے عضو کو سہلانے لگی۔ وہ کسی مردہ کی طرح لڑھکا پڑا تھا۔ ثنا نے نادر کے سینے پر پاؤں رکھا اور صوفیہ کے ساتھ ہم آغوش ہوگئی۔ کافی محنت کے بعد عضوِ خاص میں زندگی کی رمق نظر آئی اور رومانہ نے ذرا سی بھی دیر کیے بغیر اُسے اپنے اندر داخل کرلیا۔ اُس کی اچھل کود کی وجہ سے کمرے میں پچ پچ کی آواز گونج رہی تھی اور اُس کی چھاتیاں کسی گیند کی طرح ہل رہی تھیں۔ دس منٹ بعد نادر کو محسوس ہوا کہ وہ ایک بار پھر فارغ ہونے لگا ہے لیکن اب اُسے چکر آرہے تھے اور اُس کی ٹانگوں سے جان نکلی جارہی تھی۔ اُس کی سسکاریوں کے باوجود رومانہ اُس سے الگ نہ ہوئی اور وہ اُس کی اندامِ نہانی ہی میں چھوٹ گیا۔ فارغ ہوتے ہی اُسے شدید چکر آئے، اُس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا اور پھر اُسے کوئی ہوش نہ رہا۔

جاری ہے۔۔۔

3 comments:

  1. Aysi hi koi larki mare sy sex karna chahti ho to contacte kary. Mai Saudi rehta hn.
    00966 594030544
    nightriders22@yahoo.com

    ReplyDelete
  2. Jo larki hard r hot sex sex karna chahti ho mug sy contacte kary. I live in Saudia
    00966 594030544
    nightriders22@yahoo.com

    ReplyDelete
  3. Jo larki hard r hot sex sex karna chahti ho mug sy contacte kary. I live in Saudia
    00966 594030544
    nightriders22@yahoo.com

    ReplyDelete