Albeli, Deewani

اچانک کلاس روم کا دروازہ کھلا اور زرینہ داخل ہوئی۔ ٹیچر نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑ کر ناخوشگوار انداز میں اُس کی طرف دیکھا مگر کچھ کہا نہیں اور سر کے اشارے سے اسے اندر آنے کی اجازت دی۔ نرمل نے زرینہ پر نظر ڈالی۔ یونی ورسٹی میں داخلے کو ایک ماہ سے زائدہوچکا تھا مگر زرینہ اب تک یونی ورسٹی میں اپنے پہلے دن کی طرح تھی۔ اپنے آپ میں گم رہنے والی، نسبتاً کم گو، سنجیدہ طبع اور سادہ۔ اُس نے گلابی رنگ کی کاٹن قمیص اور آسمانی رنگ کی شلوار پہن رکھی تھی جو اُس پر جچ رہی تھی۔ نرمل اُس سے کافی مختلف تھی۔ ہنس مکھ اور ہر محفل میں گھل مل جانے والی۔ وہ ایک کام یاب بزنس مین کی اکلوتی بیٹی تھی اور اُس کی ہر ادا سے امارت جھلکتی تھی۔ اُس کا لباس عموماً آدھی آستین یا بغیر آستین کی چھوٹی قمیص یا شرٹ اور ٹائٹس یا جینز ہوتے تھے۔ اُس دن بھی اُس نے چست جینز اور سفید رنگ کی ڈھیلی ڈھالی شرٹ پہن رکھی تھی اور اُس کے کاندھوں کے پاس سے اُس کے جسم کو کسنے والی سیاہ ڈوریاں واضح تھیں؛ جن کی نرمل کو کبھی پرواہ نہیں رہی تھی۔
زرینہ خاموشی سے کلاس میں داخل ہوئی اور خالی کرسی کی تلاش میں نظریں دوڑاتی ہوئی آخرکار نرمل کے برابر میں آکر بیٹھ گئی۔ نرمل نے چیونگم چباتے ہوئے کن انکھیوں سے زرینہ کا جائزہ لیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ وہ دونوں ایک ساتھ بیٹھے تھے۔ زرینہ کے نقوش اچھے تھے اور معمولی سی سانولی رنگت ہونے کے باوجود وہ خوب صورت لگتی تھی۔ اُس کا جسم خاصا پُرکشش تھا۔ اُس کے سینے پر اگرچہ دوپٹا تھا لیکن وہ اُس کی جوانی چھپانے میں ناکام تھا۔ چست قمیص اُس کے سینے کے بھرپور اُبھار سے چپکی ہوئی تھی۔ یک دم نرمل کا جی کیا کہ وہ زرینہ کے سینے پر ہاتھ پھیرے۔ اُس کے جذبات جاگ گئے۔ اُسے یاد آیا کہ کس طرح وہ بہانے بہانے سے اپنی سہیلیوں اور کزنز سے گلے لگتی تھی اور اُن کے سینے پر ہاتھ لگانے کی کوشش کرتی تھی تاکہ اُن کے نشیب و فراز کو محسوس کرے۔ اُسے اکثر حیرت ہوتی تھی کہ اُس کا دل لڑکوں سے زیادہ لڑکیوں کی طرف مائل ہوتا تھا۔ وہ جب کوئی رومانوی فلم دیکھتی تو اُس کا دل چاہتا کہ وہ اپنی کسی سہیلی کے ساتھ ہو، اُس سے لپٹ جائے اور اُسے پیار کرے۔ نرمل نے اُس وقت سوچ لیا کہ وہ زرینہ سے دوستی کرکے رہے گی۔
زرینہ سے دوستی کرنا کچھ مشکل ثابت نہ ہوا۔ وہ بھی ایک عام سی ہی لڑکی تھی۔ اُسے اچھا لگا کہ اُس سے کسی نے از خود دوستی کی ہے۔ دونوں یونی ورسٹی سے گھر جانے کے بعد بھی اکثر موبائل پر رابطے میں رہتیں۔ لیکن اتنی زیادہ گفت گو ہوجانے کے باوجود ابھی تک نرمل میں ہمت نہیں ہوسکی تھی کہ وہ جسمانی طور پر زرینہ کے انتہائی قریب ہوسکے۔ پھر ایک دن اُسے موقع مل ہی گیا۔
سینئر طلبہ کی جانب سے نئے آنے والے طلبہ کو خوش آمدید کہنے کے لیے ایک شاندار تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اُس دن سادہ نظر آنے والی لڑکیاں بھی ایسی تیاری سے آئی تھیں کہ کسی فیشن شو کا گمان ہوتا تھا۔ نرمل نے نیٹ کی سرخ قمیص پہنی جو اُس کے گھٹنوں سے کافی اوپر تھی، ساتھ میں سفید ٹائٹس پہنے جو اُس کی ٹانگوں سے چپکے ہوئے تھے۔ نیٹ کی قمیص سے اُس کا سرخ بریزر ہی نہیں، جسم کا اُبھار بھی محسوس کیا جاسکتا تھا۔ اُس کے ہال پہنچنے کے تھوڑی ہی دیر بعد زرینہ بھی پہنچ گئی۔ اُس کی تیاری دیکھ کر نرمل کے جذبات بھرپور انگڑائی لے کر جاگ اُٹھے۔ زرینہ نے برائے نام آستین کی فراک اور ٹائٹس پہنے ہوئے تھے۔ دونوں سہیلیاں ایک دوسرے سے گلے ملیں تو نرمل نے زرینہ کا سیاہ بریزر دیکھ لیا۔ اُس کا جی چاہا کہ زرینہ کے گال کو چومنے کے ساتھ ساتھ اُس کے کاندھوں کو بھی بوسہ دے۔
تقریب کی تیاریاں لاجواب تھیں۔ سبھی طلبہ لطف اندوز ہوئے لیکن نرمل کا لطف اندوز ہونا باقی سب سے مختلف تھا۔ وہ زیادہ تر وقت زرینہ کا ہاتھ تھامے رہی۔ اُسے کسی ایسی جگہ کا انتظار تھا جہاں کوئی اُنھیں نہ دیکھ پائے۔ تقریب کے درمیان میں دونوں میک اپ ٹھیک کرنے واش روم کی طرف گئے اور وہیں نرمل کو تنہائی میسر آگئی۔
"یہ تم نے سلک کا برا پہنا ہے نا؟" نرمل نے اپنے بے قابو جذبات کو چھپاتے ہوئے عام سے انداز میں پوچھا۔
"ہاں!" زرینہ نے آئینے میں دیکھتے ہوئے مختصر سا جواب دیا۔
"ذرا دیکھنے دو مجھے ہاتھ لگاکر۔" نرمل اپنے مطلب کی بات پر آگئی۔
"کیا؟ کیوں؟" زرینہ اس خلافِ متوقع بات سے گھبراگئی۔
"ارے جان! میں بھی ایسا ہی لینے کا سوچ رہی ہوں نا۔ ہاتھ لگاکر اندازہ کرنے دو۔" نرمل نے یہ کہہ کر زرینہ کی فراک میں ہاتھ ڈالا اور بلا توقف اُس کے بریزر پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ زرینہ کو یہ صورتِ حال سمجھنے میں تھوڑا وقت لگا۔ جب تک نرمل اُس کے بریزر پر ہاتھ پھیرنے کے ساتھ ساتھ اُس کے سینے کو دبانے کا شوق پورا کرچکی تھی۔
"اچھا لگ رہا ہے۔" نرمل نے ایسے کہا جیسے زرینہ کے تاثرات اُس نے محسوس ہی نہیں کیے ہوں۔
باقی وقت نرمل نارمل رہی۔ زرینہ بھی کچھ دیر تک اُس واقعے کے بارے میں سوچتی رہی اور پھر نظرانداز کردیا۔ پھر نرمل نے معمول بنالیا۔ وہ بہانے بہانے سے زرینہ کو چھوتی، اُس سے لپٹتی، موبائل پر جنسی لطیفے اور ذومعنی پیغامات بھیجتی۔ زرینہ کو بھی ان سب باتوں کی عادت ہوتی گئی۔
اُس شام نرمل کے گھر والے ایک تقریب میں گئے ہوئے تھے۔ نرمل یونی ورسٹی سے واپسی پر زرینہ کو ساتھ لے کر گھر آگئی۔ تنہائی میسر آئی تو نرمل کے جذبات کا طوفان امنڈ پڑا۔ اُس نے زرینہ کے ہونٹوں کو اچانک سے چوم لیا۔
"پاگل ہوگئی ہو کیا؟" زرینہ نے کہا۔
"ہاں جان! تمہارے حسن نے تو واقعی مجھے پاگل ہی کرکے رکھ دیا ہے۔" نرمل نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر اظہار کردیا اور اُس سے لپٹ گئی۔
زرینہ نے ابتدا میں تو معمولی سی مزاحمت کی لیکن جیسے جیسے نرمل کے کومل ہاتھوں نے زرینہ کے جسم کا سفر شروع کیا، زرینہ کی مزاحمت ٹھنڈی پڑتی گئی۔ پھر نرمل نے دونوں ہاتھ زرینہ کی قمیص میں ڈالے اور اُسے اتار دیا۔ زرینہ حیرت میں گُم اُسے دیکھتی رہی لیکن نرمل نے اُس کی طرف توجہ نہیں کی۔ اُس کی نظریں تو زرینہ کے سرخ بریزر پر جمی ہوئی تھی جس نے زرینہ کی بھرپور جوانی کو قید کر رکھا تھا۔ اُس نے چند ہی لمحے اس رکاوٹ کو گوارا کیا اور پھر ایک جھٹکے سے اُسے بھی دور کردیا۔ زرینہ کے ان دو رس بھرے پھلوں کو چوسنے کا الگ ہی لطف تھا جس نے نرمل کا نشہ بڑھا دیا۔ اور یہی وہ عمل تھا جس نے زرینہ کے جذبات بھی حقیقی معنوں میں جگادیے۔ اُسے احساس ہوا کہ اُس کا اوپری جسم اب مکمل عریاں ہے لیکن نرمل مکمل لباس میں ہے۔ اُس نے بھی نرمل کی قمیص اُتاردی۔ نرمل کو خوش گوار احساس ہوا۔ اُس نے گلابی رنگ کا چھوٹا سا بریزر پہنا ہوا تھا جو اُس کے گورے جسم پر خوب جچ رہا تھا۔  دو جسم ایک ہونے لگے۔ ایک دوسرے میں سمانے لگے۔
پھر دونوں پریمیوں کا ہاتھ ایک ہی ساتھ دوسرے کی شلوار میں داخل ہوا اور اُس وقت دونوں کو احساس ہوا کہ وہ دونوں پیار کی بارش میں بھیگ چکے ہیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کے جسم کو بھرپور ٹٹولا، صرف بیرونی ہی نہیں، اندرونی بھی۔
نرمل نے زرینہ کی ٹانگوں کے بیچ میں ہاتھ پھیرتے پھیرتے جب آہستہ سے ایک انگلی اُس کے جسم میں داخل کی تو زرینہ کی سسکاری نکل گئی۔ اُسے اچانک تکلیف کا احساس ہوا لیکن وہ کچھ بولی نہیں۔ نرمل کی اُنگلی مزید اندر جانے لگی۔ درد کا احساس بڑھ رہا تھا۔ نرمل نے انگلی ایک جگہ لے جاکر روک دی۔ پھر آرام سے انگلی پیچھے کی اور ایک جھٹکے سے پوری اندر داخل کردی۔
"آااہ! نہیں نرمل، نہیں!" زرینہ چیخ پڑی۔ لیکن نرمل نہیں رکی۔ زرینہ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اُسے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی لیکن نرمل کسی رکاوٹ کو خاطر میں لانے کے موڈ میں نہیں تھی۔ اُس کی مستی نے اسے ہر چیز سے بے گانہ کردیا تھا۔ اُس کی انگلی تیزی سے اندر باہر ہونے لگی۔ اُس کے ہونٹ زرینہ کی چھاتیوں کو چوم رہے تھے۔ زرینہ کی تکلیف جوں جوں کم ہوتی گئی، وہ ایک بار پھر مدہوش ہونے لگی۔ اور اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نرمل نے ایک اور انگلی اندر داخل کردی۔ زرینہ کی سسکاریوں اور نرمل کے بوسوں کی آواز پورے کمرے میں گونج رہی تھی۔ اچانک زرینہ کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے اُس کے جسم سے کچھ نکلنے والا ہے اور پھر  پیار کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا۔
اب نرمل کی باری تھی۔ زرینہ اُس کے اوپر آگئی اور اُس کی محبت کا بھرپور صلہ دینے لگی۔ آدھ گھنٹا گزرنے کے بعد دونوں کی سانسیں پھول چکی تھیں۔ وہ پانچ منٹ تک سدھ لیٹے رہے۔ پھر ایک ساتھ غسل خانے میں گھس گئے۔ شاور کے ٹھنڈے پانی کو دو لپٹے ہوئے جسموں کے درمیان راستہ بنانے میں خاصی مشکل پیش آئی لیکن نئی نئی محبت کے نشے نے اُنھیں ہر چیز سے لاپرواہ کردیا تھا۔

2 comments:

  1. story too short etnha maza nahi aya thora orr longkarke likho na plezzzzz

    ReplyDelete
  2. 03244707343 niceeeeeeeeeee

    ReplyDelete